Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 21


Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Episode 21 Posted on Novel Bank.

مرتضیٰ آفس سے واپس لوٹا تھا۔ آ کر سیدھا اپنے روم میں آیا۔ فریش ہو کر شرٹ لیس گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا باہر آیا۔ جب دروازے پر دستک محسوس ہوئی۔ 

یس کم ان،،،، اسے لگا وہ دشمن جاں ہے جو اتنے دنوں سے روٹھی بیٹھی ہے۔ اسی لئے بغیر سوچے سمجھے آنے والے کو اندر آنے کی اجازت دے گیا۔(ہائے رے خوش فہمی تیرا آسرا)

مگر دروازے سے ازکی کو اندر آتا دیکھ اس کے ماتھے پر ڈھیر سارے بل آئے تھے۔ جبکہ وہ سامنے اسے ایسی حالت میں دیکھ پہلے تو شرمندہ ہوئی مگر اس کے دل کے مقام پر اپنے نام کی بجائے وہ سیاہ دھبہ دیکھ اپنی جگہ پر ٹھٹھک گئی۔ 

ازکیٰ فوراً جاؤ یہاں سے ،، کوئی بات ہے بھی تو میں اوپر آ کر سنتا ہوں،،، جاؤ یہاں سے،،، 
وہ کاٹ دار لہجے میں غرایا تو ازکی غصے سے لال پہلی ہوتی وہاں سے چلی گئی۔ 

وہ تین ہفتوں سے ناصرہ بیگم کے کمرے میں بند تھی۔ مرتضیٰ کے لیے یہ دہری اذیت تھی ۔ قید تنہائی کا شکار اب وہ ہفتے سے تقریباً آفس جانا شروع کر چکا تھا۔ پہاڑ جتنے غم کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لادے پھر رہا تھا۔ مناہل تو اس سے ناراضگی جتا کر اسے خود سے دور کر کے اپنے دل کی ساری بھڑاس سارا غم وغصہ نکال رہی تھی۔ 

وہ کس کے پاس جاتا۔ کس کے کندھے سے لگ کر اپنا غم غلط کرتا۔ کس سے اپنے غم اپنا درد بانٹتا۔ جبکہ سب سے زیادہ نقصان تو اسی کا ہو تھا ناں تو وہ کیوں اسے اتنی کڑی سزا دے رہی تھی۔ 

جو بھی مہمان آئے تھے وہ آہستہ آہستہ سب جا چکے تھے۔ مرتضیٰ نے اس کے لیے ایک کل وقتی ملازمہ کا بندوست کر دیا تھا جو اس کی دیکھ بھال بخوبی کر رہی تھی۔ 

وہ اتنے دنوں سے کمرے سے باہر نکلی ہی نہیں تھی۔ مرتضیٰ نے اس کے پاس جانے کی کوشش کی تو اس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ تبھی مرتضیٰ نے پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ کہ اسے وہ اور یہ بچہ بہت عزیز تھا۔ اب ان دونوں میں سے کسی کو کچھ ہوتا تو وہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ 

مناہل کا کھانا شبانہ کمرے میں ہی لے آئی تھی۔ جو اب عشا کی نماز ادا کر رہی تھی۔ اس نے کھانا ٹرے پر رکھا۔ اور وہیں بیٹھ گئی۔ اسے ہدایت تھی کہ جب تک مناہل کھانا اس کے سامنے نا کھائے وہ کمرے سے ہلے گی بھی نہیں۔ 

مناہل نے نماز ادا کی اور چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔ 
بی بی جی سہی بنا ہے کھانا ،،؟  شبانہ نے ہی بات کا آغاز کیا۔ 

مناہل نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ سنو شبانہ وہ جو اوپر مہمان ہے وہ چلی گئی ہے کیا،،،؟ مناہل نے یونہی پوچھ لیا۔ 

نہیں بی بی،،، مگر کیوں،،،؟
مناہل کے اندر کچھ چھن سے ٹوٹا۔ 

تمھارے صاحب،، وہ اوپر جاتے ہیں کیا؟ مناہل کو اپنی آواز کسی کھائی سے آتی سنائی دی۔ 

نہیں وہ تو نہیں جاتے مگر ابھی کچھ دیر ہے وہ صاحب کے کمرے میں گئی تھی،، میں نے سنا تھا،، شاید کوئی کام تھا،، مگر صاحب نے بےعزتی کر کے کمرے سے نکال دیا یہ بول کر کہ وہ اوپر جائے،، صاحب ادھر ہی آ کر بات سنیں گے،،،

شبانہ نے اس کی بے عزتی کا احوال چٹخارے لگا کر سنایا۔ مگر مناہل کے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ بات اسے اچھی لگی کہ بری۔ 

وہ کھانا کھا چکی تو شبانہ برتن سمیٹ کر چکی گئ۔ پھر وہ تھی اور اس کی تنہائی۔ وہ خون آشام منفی  سوچیں جو روز قطرہ قطرہ اس کا خون پی رہیں تھیں۔ اسے آدھ مویا کر دیتی تھیں۔ 

رات کا جانے کونسا پہر تھا۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا۔ ازکی سے بول دیا تھا کہ وہ اوپر آ کر بات سنے گا۔ مگر اس کا اتنا موڈ خراب تھا کہ وہ اوپر گیا ہی نہیں۔ 
بے چینی حد سے سوا تھی۔ وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا۔ قدم بے اختیار ہی ناصرہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔ 

آج اس گھر میں وہ تینوں نفوس جاگ رہے تھے۔ وہ بھی تو اوپر سے جھانک کر دیکھ رہی تھی کہ وہ جاگ رہا ہے اور اپنے کمرے سے باہر نکلا ہے۔ 

مرتضیٰ چھوٹے سے لاونج تک آیا تھا۔ اور پھر ادھر ہی بیٹھ گیا۔ سلگتی کنپٹیوں کو سہلانے لگا۔ 

ادھر مناہل بے چین سی تھی۔ شام سے طبیعت بوجھل سی تھی۔ پھر اچانک پہلو میں درد ہونے لگا۔ اور وہ کسی نقصان کے ہونے کا سوچ کر بہت بری طرح ڈر گئی۔ کچھ یہ بھی سوچ کر کہ وہ بھی تڑپ تڑپ کر اس کمرے میں اکیلے ہی مر جائے گی۔ سب سو رہے ہوں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ مت گئی۔ 

مم،،، مرتضیٰ،،، 
پہلو پکڑ کر دوہری ہوتی وہ اٹھ بیٹھی۔ اور اپنی پوری طاقت لگا کر اسے پکارا۔ 

مرتضیٰ جو لاؤنج میں تھا۔ اسے آواز سنائی دی تو اپنا وہم سمجھ کر زخمی سا مسکرایا۔ 
مرتضیٰ،،، میں مر جاؤں گی،،، آہہہہہہہہہہہ
مگر جب دوبارا مناہل کی پکار اور چیخ سنائی دی تو وہ بوکھلا اس کے کمرے کی جانب آیا تھا۔ 

مناہل،، اس نے دروازے پر دستک دی۔ مگر سر پر ہاتھ مارتا اپنی پاکٹ میں سے ڈوبلکیٹ کی (وہ جو ہر وقت احتیاطاً اپنے پاس رکھتا تھا) نکال کر دروازے کا لاک کھولا۔ اور پاگلوں کی طرح اندر داخل ہوا۔ 

مناہل کیا ہوا،،،؟ تم ٹھیک تو ہو،، وہ جو بیڈ پر بیٹھی دہری ہو رہی تھی۔ مرتضیٰ نے اسے پکڑ کر سیدھا کیا۔
مناہل نے اسے اپنے پاس اور اتنے قریب دیکھا تو اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے تو لگا وہ آئے گا ہی نہیں

کیا ہوا مناہل ،،کچھ بتاؤ گی ،،تم ٹھیک تو ہو،،، 

مرتضیٰ مجھے یہاں درد ہو رہا ہے،، درد برداشت کرتے اس کا چہرہ سرخ پڑا۔ مرتضیٰ نے اسے بانہوں میں بھرا اور فورا باہر لے گیا۔

نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔


Online Reading

Related Posts

إرسال تعليق