Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 24


Hubb e Aneed Online Urdu Novel by Wahiba Fatima Novel Second Last Episode 24 Posted on Novel Bank.

مرتضیٰ ڈوبلکیٹ کی سے ڈور کھول کر کمرے میں داخل ہوا تو وہ ڈری سہمی دروازے کے پیچھے چھپی کھڑی ہوئی تھی۔ 

منوو،،، مرتضیٰ نے اسے پکارا۔ مناہل نے اس ستمگر کی آواز سنی تو لپک کر اس کے کشادہ سینے میں جائے پناہ تلاش کرنی چاہی۔ مرتضیٰ نے اسے خود میں بھینچا۔ تو وہ تو پڑی۔ 

ہیے منوو،،، تم کیوں اتنا ڈر رہی ہو،، یہ تمہارا لمبو ڈریکولا تمھیں کبھی آنچ بھی نہیں آنے دے گا،،سمجھیں،، 
اس نے اس کی پیٹھ رب کی۔ 

میں نے اس کا نکاح کر دیا ہے وہ چلی گئی ہے یہاں سے،، میرے اور تمھارے بیچ نا پہلے کبھی کوئی تھا نا کبھی آئے گا،،، وہ ایک جزب کے عالم میں اسے سینے سے بھینچے بولے گیا۔ پھر اس کا چہرہ سینے سے نکال کر اپنے سامنے کیا اور ماتھے پر اپنے لب رکھے۔ 

مرتضیٰ،، میں بہت ڈر گئی تھی،، اس نے منہ بسور کر کہا۔۔ 

ہاں ناں،،، وہ اس لئے کہ میں بلکل ٹھیک کہتا ہوں تمھیں،، کیونکہ تم میری بزدل چوہیا جو ہو،، جو حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے چوہیا کی طرح دبک کر یہاں چھپ گئیں،،
مرتضیٰ نے اسے چھیڑا۔ 

قلب میں منہ توڑ دوں گی آپ کا،، 
وہ بھنا گئی اس کے مزاق اڑانے پہ۔ 

کبھی تو یہ بھی بول دو کہ قلب میں پیار کروں گی آپ کو قسم سے حسرت حسرت ہی رہ جانی ہے،، مرتضیٰ نے سرد آہ بھری۔ 

منہ دھو رکھیں اپنا،،، وہ ناک چڑھا کر بولی۔ 

آؤں ہونہوں،، میں تو نہاوں گا ،،، وہ بھی تمھاری محبت کی بارش میں،،، وہ اس کے بالوں میں منہ دے کر بولیں۔ 

قلب پلیز تنگ نا کریں،، وہ منہ بسورتی سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔ قلب نے اسے مزید اپنے قریب کر لیا۔۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ دونوں واپس راولپنڈی جا رہے تھے۔ سب بڑوں نے انھیں دعائیں تلے رخصت کیا تھا۔

گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔  منیہا کنفیوز سی اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ مبادا راحم اس سے پینڈنٹ کے متعلق نا پوچھ لے جو اس نے اس سے چوری چوری پہنا تھا۔ اور پھر اس کا ڈر اس کے سامنے آ ہی گیا۔ 

منیہا تم نے پینڈنٹ پہنا ہے؟ 
راحم نے پوچھ کر دانتوں تلے لب دبایا۔ وہ پہلو بدل کر رہ گئی۔ اور یوں انجان بن گئی جیسے کچھ سونا ہی نہیں۔ 

راحم خاموش ہو گیا۔ اب دوبارا وہ اس سے اس کے متعلق بات نہیں کرنے والا تھا تب تک جب تک وہ خود دھڑلے سے اس کے سامنے وہ پینڈنٹ پہن کر نہیں آنے والی تھی۔ 

وہ اس سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے اسے ریلیکس کرنے لگا۔ وہ بھی جلد باتوں میں بن بہل گئی۔ اور اس متعلق بھول گئی۔ وہ اس سے بات کر رہا تھا اور فون مسلسل بج بج کر پاگل ہو رہا تھا۔ 

لاہور میں بھی راحم نے علشبہ کی آنے والی مسلسل فون کالز سے وجہ سے فون سوئچ آف کر کے رکھا۔ اور اب وہ پھر مسلسل ٹلی پہ ٹلی بجا رہی تھی۔ 

رسیو کر لیں راحم،، اللہ نا کرے کوئی ایمرجنسی نا ہو،،، 
منیہا نے سادگی سے کہا تھا۔ راحم اس کی جانب دیکھ کر رہ گیا۔ کتنی سادہ لوح تھی وہ۔ بلکل شفاف دل کی مالک۔ کسی سے بھی کسی قسم کا بغض یا کینہ اپنے دل میں نا رکھنے والی حساس دل لڑکی۔ 
جبکہ علشبہ اس کے بلکل برعکس کافی کینہ پرور، دوغلی اور حاسد تھی۔ 

راحم نے فون یس کر کے کان کو لگایا۔ 
اسلام وعلیکم،، کیا بات خیریت ہے ناں،، راحم نے عام لہجے میں پوچھا تھا۔ 

میں پوچھتی ہوں آخر آپ ہیں کدھر،، لاہور گئے تھے آپ اس کے ساتھ،، آخر اس حرافہ نے آپ کو اپنے دام میں پھنسا ہی لیا ناں،،، کیونکہ اس کام میں تو وہ کافی ایکسپرٹ ہے،،، کئی سال کی دوستی ہے،، آخر اتنا تو جانتی ہوں اس کے بارے میں،، کہ اس نے کس کس کے ساتھ گلچھرے اڑائے ہیں،، راحم وہ بےوقوف بنا رہی ہے آپ کو،، وہ ایک بدکردار،،،،،،،،، 

شٹ اپ یو بچ،،، شٹ اپ،،، بھونکنا بند کرو،،اچھی طرح جانتا ہوں میں کہ کون کتنے پانی میں ہے،، کہیں تم یہ سب خوبیاں اپنی تو نہیں بتا رہی کیونکہ انسان جیسا خود ہوتا ہے بلکل ویسا دوسروں کو سمجھتا ہے،،،
راحم دھاڑا تھا۔ فون بند کر کے پچھلی سیٹ پر پھینکا۔ 
منیہا بھی اس کے اس قدر غصے پر اہم گئی تھی۔ 

راحم ،، کک کیا ہوا،،، منیہا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ 

بات مت کرو تم بھی مجھ سے،، تمھیں کیوں ہر کسی سے ہمدردی کا بخار آتا ہے آخر،،، کس مٹی کی بنی ہوئی ہو تم،، تمھارے کہنے پہ فون رسیو کیا میں نے،، اور اس کی بکواس سنی،، ششششٹٹٹٹٹٹٹٹ،،،،،،

اس نے سٹیرنگ پر مکا برسایا۔ 
منیہا اپنی جگہ پر دم سادھ گئی۔ پھر سرا سفر خاموشی سے کٹا۔ وہ شام تک گھر پہنچے۔ 

راحم اسے گھر ڈراپ کر کے اسی خراب موڈ کے ساتھ ناراضگی سے کہیں باہر چلا گیا۔ منیہا اسے آوازیں دیتی رہ گئی۔ مگر وہ ان سنی کرتا نکل گیا۔ 

پھر وہ ڈنر کی تیاری تک بے چین رہی۔ جانتی تھی وہ کسی صورت آج علشبہ کی شکل تک نہیں دیکھے گا اور ادھر ہی آئے گا۔ تبھی وہ ڈنر تک اس کا ویٹ کرتی رہی۔ وہ اس کا فون بھی رسیو نہیں کر رہا تھا۔ منیہا کچھ سوچ کر اپنے روم میں آئی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ قاسم کے ساتھ مسجد سے ملحقہ اس چھوٹے سے گھر میں داخل ہوئی۔ ایک طائرانہ نگاہ سے دو کمروں کے اس چھوٹے سے بند گھر کا جائزہ لیا۔ چھوٹا سا برآمد ملحقہ کچن اور واش روم شاید اٹیچ ہی تھا۔ 

آپ تھوڑا آرام کر لیں اندر کمرے میں جا کر،، گھر میں ہر ضرورت کی چھوٹی سے چھوٹی چیز موجود ہے،، پھر اگر ہو سکے تو رات کا کھانا بنا لیجیے گا،، میں مسجد جا رہا ہوں،، 

قاسم نے اسے بولا تو اس نے تحیر سے اپنے تازہ تانے شوہر کی جانب دیکھا۔ جو چند گھنٹوں کی دلہن کو کھانا بنانے کو بول رہا تھا۔ 

مجھے معلوم ہے میں اپنی نوی نویلی دلہن کو کھانا بنانے کا بول رہا ہوں ،، مگر کیا کروں مجبوری ہے،، ویسے یوں آپ اس گھر سے جلد مانوس ہو جائیں گی،، 
وہ شاید اس کی سوچ پڑھ چکا تھا تبھی مسکرا کر بولا۔ 
ازکیٰ گڑبڑائی تھی اور فورا اندر چلی گئی۔ قاسم مسکراتا دیوار میں موجود چھوٹے سے دروازے سے مسجد چلا گیا۔ 


Online Reading 


Related Posts

إرسال تعليق