Aseer e Mohabbat by Ume Emaan Fatima Novel Episode 5


Aseer e Mohabbat Online Urdu Novel by Ume Emaan Fatima Episode 05 Posted on Novel Bank.

پھر اگلے دن وہ سارے کام نبٹانےکے بعد آفس سے سیدھا مسکان سے ملنے کے لئے شاہ ولا چلا آیا۔۔
 ملازم نے اسے لیونگ روم میں بٹھایا اور کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد نیناں شاہ لیونگ روم میں داخل ہوئی۔۔
جی کہئے،،؟  اس نے صالح کے پاس آکر پوچھا۔۔
صالح نے چونک کر اسے دیکھا اور بغور اس کا جائزہ لیا۔
 وہ انیس بیس سال کی لڑکی تھی اور اس نے بڑی سی چادر لے رکھی تھی اور اس میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی اور چہرےپہ بچوں سی معصومیت تھی۔
جی مجھے مسکان سے ملنا ہے۔۔
 مسکان تو اپنے کالج گئی ہوئی ہے آپ بیٹھئے میں آپ کے لیے کچھ کھانے پینے کے لئے واپس بھیجتی اور تب تک وہ واپس آ جائے گی، وہ بولی اور پھر واپس مڑنے لگی۔
 سنئے کیا نام ہے آپ کا؟
جی نیناں شاہ، وہ صالح کو جواب دیتے ہوئے بولی۔
 میرا نام صالح ہے۔۔
 اس کے تعارف کروانے پر نیناں ایک جھٹکے سے مڑی اور اسے حیرانگی سے دیکھنے لگی۔۔
 آپ وہی صالح جی ہیں جن سے مشی آپی کی منگنی ہوئی تھی،؟ اس نے پوچھا۔۔
جی۔۔۔۔
 اچھا۔۔۔ پلیز آپ بیٹھئے میں ابھی کچھ کھانے پینے کے لئے لے کر آتی ہوں، وہ کہہ کر روم سے باہر نکل گئی۔
 کچھ دیر بعد وہ ٹرالی گھسیٹتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔۔
اور پھر چائے بنا کر اسے تھما کر اس کے سامنے صوفے پہ بیٹھ گئی۔
میرے بھیا نے جو بھی کیا وہ بہت غلط تھا، ان کی طرف سے میں آپ سے معافی مانگتی ہوں وہ برے انسان نہیں ہیں بس غصے کے بہت تیز ہیں۔۔
 صفائیاں دے رہی ہیں اپنے بھائی کی،،؟ صالح نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
 نہیں جی ایسی کوئی بات نہیں ہیں میں صرف یہ بتا رہی ہو کہ سچ میں انہوں نے غلط کیا لیکن وہ برے نہیں تھے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا انہیں،  اس لئے میں آپ سے معافی مانگ رہی ہوں اور آپ سے ریکویسٹ کرتی ہوں کہ آپ انہیں معاف کر دیجئے، نیناں نے جلدی سے کہا۔۔
 کیا معافی کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ ہے؟ نیناں جی میں انہیں معاف کر چکا ہوں تو یہاں پر مسکان سے ملنے آیا ہوں اور اب میں اپنی زندگی میں بھی جلدی آگے بڑھ جاؤں گا کوئی نہ کوئی میرے لئے بھی ہوگی جو مجھ سے محبت کرے گی۔
 بالکل ہوگی اور کیوں نہیں ہوگی آپ ہے ہی اتنے اچھے؟ وہ ایکسائیٹڈ انداز میں بولی۔
 اچھا تو مطلب میں آپ کو اچھا لگتا ہوں،،؟
نن، نہیں تو میرا مطلب یہ نہیں تھا، وہ گڑبڑا کر بولی۔۔
 مطلب اچھا نہیں لگتا۔۔
 نہیں میرا یہ بھی مطلب نہیں تھا، میرا مطلب ہے کہ آپ سب کو ہی اچھے لگتے ہیں، پتا ہے زیبا آنٹی نے کہا تھا کہ جو معاف کر دیتا ہے نا وہ سب سے اچھا انسان ہوتا ہے، وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
اچھا تو یہ بات ہے، وہ اس ساری باتوں میں پہلی بار صحیح سے مسکرایا تھا۔
 ہنستے ہوئے اچھے لگتے ہیں ہنستے رہا کریں، نیناں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
 پھر تو لوگ مجھے پاگل خانے چھوڑ آئیں گے، صالح  نے اپنا ہونٹ دانتوں تلے دباتے ہوئے کہا۔۔
ہیںںںں ایسا کیوں،،؟
 کیوں کہ اب بندہ بلاوجہ ہنستا رہے گا تو لوگ اسے پاگل ہی سمجھیں گے نا اور پھر پاگل خانے میں ہی چھوڑ آئیں گے، صالح نے کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
صالح اس کی اس قدر شفاف کنھکتی ہوئی ہنسی پہ مبہوت رہ گیا تھا اور ہنستے ہوئے جو ڈمپل نمودار ہوا تھا وہ اس کو اور حسین بنا رہا تھا، وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھی شاید مشال سے بھی زیادہ۔۔۔وہ اپنے دل کو ملامت کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
ارے کیا ہوا۔۔؟
 مجھے لگتا ہے کہ مسکان شاید لیٹ ہوجائے گی تو میں اب چلتا ہوں کل ملنے آجاؤں گا بلکہ ایک کام کیجئے آپ مجھے اپنا نمبر دے دیجئے تاکہ میں آپ سے پوچھ کر لوں فون پہ آنے سے پہلے کہ وہ گھر پر ہیں کہ نہیں،،؟ صالح نے کہا۔
جی اچھا،، اس نے کہا اور پھر اس کا موبائل پکڑ کر اس میں اپنا نمبر سیو کردیا۔
اور صالح اسے خدا حافظ بول کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
شاہ میر رات گئے کمرے میں داخل ہوا تو بیڈ کی کنارے پہ لیٹی اپنے وجود سے انجان مشال کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔
بال کھلے ہوئے تھے جو کہ آدھے سینے پہ تھے اور آدھے بیڈ پہ بکھرے تھے اور کچھ ہونٹوں کو چوم رہے تھے۔
شاہ میر نے سر جھٹکا اور ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
کپڑے چینج کرنے کے بعد ٹراؤزر پہن کر باہر نکلا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ اسکے بال سمیٹ کر سائیڈ پہ کرتے ہوئے لیٹ گیا پھر اس کی نظر اس کے ہونٹوں کو چھوتے بالوں پہ گئی تو کہنی کے بل تھوڑا سا اوپر ہو کر اس نے انگلی سے اس کے بالوں کو ہٹایا تو مشال نے نیند میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اس پہ رخسار رکھ دیا۔
شاہ میر نے گہرا سانس بھرا اور اس کے قریب کو کر لیٹ گیا، اس کی سانسوں کی گرمائش وہ اپنے سینے پہ محسوس کر رہا تھا اور اس کے بالوں کی خوشبو اسے مدہوش کر رہی تھی، وہ بامشکل اپنے جذبات کو دبا رہا تھا۔۔
پھر تھک ہار کر اس کی آنکھ لگی جو کہ مشال کے ہڑبڑا کر اٹھنے پہ کھلی۔
ہاؤ ڈیئر یو، تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے پاس آنے کی،؟ وہ چلائی۔
شاہ میر نے اس کے انداز پہ ایک جھٹکے سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر کھینچا تو وہ اس کے سینے پہ گری۔۔
چھ،، چھوڑو مجھے،

غلطی تمہاری اور چلا مجھ پہ رہی ہو، شاہ میر نے اس سے پہلو میں گرا کر کہنی کے بل زرا سا اونچا ہوتے ہوئے پوچھا۔
میری غلطی؟ 
جی ہاں آپ کی غلطی محترمہ، پتا بھی ہے کہ کل رات آپ نے کیا کیا۔۔
کک، کیا کیا؟
کس کی تھی تم نے میرے ہینڈ کی اور۔۔۔ شاہ میر نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی۔
اور،،،؟ اس نے بے چینی سے پوچھا۔
چھوڑو یار، مجھے تو بتاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے، شاہ میر نے اپنے چہرے کے آگے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
شٹ اپ میں ایسی حرکت نہیں کر سکتی ہوش و حواس میں۔
 تم ہوش و حواس میں کب تھی رات کو، شاہ میر نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
 کیا مطلب میں ہوش میں کیوں نہیں تھی؟ وہ گھبرا کر بولی۔


Online Reading


Related Posts

إرسال تعليق